50%

لب کشائی کو اذنِ حضوری ملا چشمِ بے نور کو روشنی مل گئی

لب کشائی کو اذنِ حضوری ملا چشمِ ے نور کو روشنی مل گئی

ہاتھ اٹھاوں میں ا کس دعا کے لیے انکی نست سے ج ہر خوشی مل گئی

٭

ذوق میرا عادت میں ڈھلنے لگا زاویہ گفتگو کا دلنے لگا

ساعتیں میری پرکیف ہونے لگیں دھڑکنوں کو مری ندگی مل گئی

٭

ناز اپنے مقدر پہ آنے لگا ہر کوئی ناز میرے اٹھانے لگا

دھل گیا آئینہ میرے کردار کا ج سے ہونٹوں کو نعتِ نی مل گئی

٭

ان کی چشمِ عنایت کا اعجاز ہے ورنہ کیا ہوں میں کیا میری پرواز ہے

خامیاں میری نتی گئیں خویاں زندگی کو مری زندگی مل گئی

٭

میری تقدیر گڑی نائی گئی ات جو ھی کہی کہلوائی گئی

میں نے تو صرف تھاما قلم ہاتھ میں جانے کیسے کڑی سے کڑی مل گئی

٭

زندگی ج سے ان کی پناہوں میں ہے ایک تاندگی سی نگاہوں میں ہے

مجھ کو اقرار ہے اس کے قال نہ تھا ذاتِ وحدت سے جو روشنی مل گئی

٭

مدحتِ مصطفےٰ ہے وہ نورِ میں جس کا ثانی دو عالم میں کوئی نہیں

آس اس کی شعاعوں کے ادراک سے راہ ھٹکوں کو ھی رہری مل گئی

٭٭٭