لب کشائی کو اذنِ حضوری ملا چشمِ بے نور کو روشنی مل گئی
لب کشائی کو اذنِ حضوری ملا چشمِ ے نور کو روشنی مل گئی
ہاتھ اٹھاوں میں ا کس دعا کے لیے انکی نست سے ج ہر خوشی مل گئی
٭
ذوق میرا عادت میں ڈھلنے لگا زاویہ گفتگو کا دلنے لگا
ساعتیں میری پرکیف ہونے لگیں دھڑکنوں کو مری ندگی مل گئی
٭
ناز اپنے مقدر پہ آنے لگا ہر کوئی ناز میرے اٹھانے لگا
دھل گیا آئینہ میرے کردار کا ج سے ہونٹوں کو نعتِ نی مل گئی
٭
ان کی چشمِ عنایت کا اعجاز ہے ورنہ کیا ہوں میں کیا میری پرواز ہے
خامیاں میری نتی گئیں خویاں زندگی کو مری زندگی مل گئی
٭
میری تقدیر گڑی نائی گئی ات جو ھی کہی کہلوائی گئی
میں نے تو صرف تھاما قلم ہاتھ میں جانے کیسے کڑی سے کڑی مل گئی
٭
زندگی ج سے ان کی پناہوں میں ہے ایک تاندگی سی نگاہوں میں ہے
مجھ کو اقرار ہے اس کے قال نہ تھا ذاتِ وحدت سے جو روشنی مل گئی
٭
مدحتِ مصطفےٰ ہے وہ نورِ میں جس کا ثانی دو عالم میں کوئی نہیں
آس اس کی شعاعوں کے ادراک سے راہ ھٹکوں کو ھی رہری مل گئی
٭٭٭