اپنی اوقات کہاں، ان کے سبب سے مانگوں
اپنی اوقات کہاں، ان کے س سے مانگوں
ر ملا ان سے تو کیوں ان کو نہ ر سے مانگوں
٭
ان کی نست ہے ہت ان کا وسیلہ ہے ہت
کیوں میں کم ظرف نوں ڑھ کے طل سے مانگوں
٭
جس ضیا سے صدا جگ مگ ر ہے دنیا من کی
اس کی ہلکی سی رمق ماہِ عر سے مانگوں
٭
آندھیاں جس کی حفاظت کو رہیں سرگرداں
پیار کا دیپ وہ ازارِ اد سے مانگوں
٭
کوئی اسلو سلیقہ نہ قرینہ مجھ میں
سوچتا ہوں انھیں کسی طور سے، ڈھ سے مانگوں
٭
کارواں نعت کا اے کاش رواں یوں ہی رہے
اور میں نِت نئے عنوان اد سے مانگوں
٭
آس آاد رہے شہر مری الفت کا
ہر گھڑی اس کی خوشی دستِ طل سے
٭٭٭