مخلوقات ہنر
ہے یہ فردوس نظر اہل ہنر کی تعمیر
فاش ہے چشم تماشا پہ نہاں خانۂ ذات
*
نہ خودی ہے ، نہ جہان سحر و شام کے دور
زندگانی کی حریفانہ کشاکش سے نجات
*
آہ ، وہ کافر بیچارہ کہ ہیں اس کے صنم
عصر رفتہ کے وہی ٹوٹے ہوئے لات و منات!
*
تو ہے میت ، یہ ہنر تیرے جنازے کا امام
نظر آئی جسے مرقد کے شبستاں میں حیات!
***
اقبال
فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی
مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ، وہی آش
*
حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش!
***