رومی
غلط نگر ہے تری چشم نیم باز اب تک
ترا وجود ترے واسطے ہے راز اب تک
*
ترا نیاز نہیں آشنائے ناز اب تک
کہ ہے قیام سے خالی تری نماز اب تک
*
گسستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک
کہ تو ہے نغمۂ رومی سے بے نیاز اب تک!
***
جدت
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے
*
خورشید کرے کسب ضیا تیرے شرر سے
ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے
*
دریا متلاطم ہوں تری موج گہر سے
شرمندہ ہو فطرت ترے اعجاز ہنر سے
*
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟
***