مرزا بیدل
ہے حقیقت یا مری چشم غلط بیں کا فساد
یہ زمیں، یہ دشت ، یہ کہسار ، یہ چرخ کبود
*
کوئی کہتا ہے نہیں ہے ، کوئی کہتاہے کہ ہے
کیا خبر ، ہے یا نہیں ہے تیری دنیا کا وجود!
*
میرزا بیدل نے کس خوبی سے کھولی یہ گرہ
اہل حکمت پر بہت مشکل رہی جس کی کشود!
*
''دل اگر میداشت وسعت بے نشاں بود ایں چمن
رنگ مے بیروں نشست از بسکہ مینا تنگ بود''
***
جلال و جمال
مرے لیے ہے فقط زور حیدری کافی
ترے نصیب فلاطوں کی تیزی ادراک
*
مری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی
کہ سر بسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک
*
نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر
نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک
*
مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بے باک!
***