مصور
کس درجہ یہاں عام ہوئی مرگ تخیل
ہندی بھی فرنگی کا مقلد ، عجمی بھی !
*
مجھ کو تو یہی غم ہے کہ اس دور کے بہزاد
کھو بیٹھے ہیں مشرق کا سرور ازلی بھی
*
معلوم ہیں اے مرد ہنر تیرے کمالات
صنعت تجھے آتی ہے پرانی بھی ، نئی بھی
*
فطرت کو دکھایا بھی ہے ، دیکھا بھی ہے تو نے
آئینۂ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی!
***
سرود حلال
کھل تو جاتا ہے مغنی کے بم و زیر سے دل
نہ رہا زندہ و پائندہ تو کیا دل کی کشود!
*
ہے ابھی سینۂ افلاک میں پنہاں وہ نوا
جس کی گرمی سے پگھل جائے ستاروں کا وجود
*