فوارہ
یہ آبجو کی روانی ، یہ ہمکناری خاک
مری نگاہ میں ناخوب ہے یہ نظارہ
*
ادھر نہ دیکھ ، ادھر دیکھ اے جوان عزیز
بلند زور دروں سے ہوا ہے فوارہ
***
شاعر
مشرق کے نیستاں میں ہے محتاج نفس نے
شاعر ! ترے سینے میں نفس ہے کہ نہیں ہے
*
تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم
اچھی نہیں اس قوم کے حق میں عجمی لے
*
شیشے کی صراحی ہو کہ مٹی کا سبو ہو
شمشیر کی مانند ہو تیزی میں تری مے
*
ایسی کوئی دنیا نہیں افلاک کے نیچے
بے معرکہ ہاتھ آئے جہاں تخت جم و کے
*
ہر لحظہ نیا طور ، نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلۂشوق نہ ہو طے!
***