مرد بزرگ
اس کی نفرت بھی عمیق ، اس کی محبت بھی عمیق
قہر بھی اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق
*
پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں
ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق
*
انجمن میں بھی میسر رہی خلوت اس کو
شمع محفل کی طرح سب سے جدا ، سب کا رفیق
*
مثل خورشید سحر فکر کی تابانی میں
بات میں سادہ و آزادہ، معانی میں دقیق
*
اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا
اس کے احوال سے محرم نہیں پیران طریق
***
عالم نو
زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیر تقدیر
خواب میں دیکھتا ہے عالم نو کی تصویر
*
اور جب بانگ اذاں کرتی ہے بیدار اسے
کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دنیا تعمیر
*
بدن اس تازہ جہاں کا ہے اسی کی کف خاک
روح اس تازہ جہاں کی ہے اسی کی تکبیر
***