مناصب
ہوا ہے بندۂ مومن فسونی افرنگ
اسی سبب سے قلندر کی آنکھ ہے نم ناک
*
ترے بلند مناصب کی خیر ہو یارب
کہ ان کے واسطے تو نے کیا خودی کو ہلاک
*
مگر یہ بات چھپائے سے چھپ نہیں سکتی
سمجھ گئی ہے اسے ہر طبیعت چالاک
*
شریک حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے
خریدتے ہیں فقط ان کا جوہر ادراک!
***
یورپ اور یہود
یہ عیش فراواں ، یہ حکومت ، یہ تجارت
دل سینۂ بے نور میں محروم تسلی
*
تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے
یہ وادی ایمن نہیں شایان تجلی
*
ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیب جواں مرگ
شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولی!
***