اہل مصر سے
خود ابوالہول نے یہ نکتہ سکھایا مجھ کو
وہ ابوالہول کہ ہے صاحب اسرار قدیم
*
دفعتہً جس سے بدل جاتی ہے تقدیر امم
ہے وہ قوت کہ حریف اس کی نہیں عقل حکیم
*
ہر زمانے میں دگر گوں ہے طبیعت اس کی
کبھی شمشیر محمد ہے ، کبھی چوب کلیم!
***
ابی سینیا
(۱۸اگست۱۹۳۵)
یورپ کے کرگسوں کو نہیں ہے ابھی خبر
ہے کتنی زہر ناک ابی سینیا کی لاش
*
ہونے کو ہے یہ مردۂ دیرینہ قاش قاش!
تہذیب کا کمال شرافت کا ہے زوال
*
غارت گری جہاں میں ہے اقوام کی معاش
ہر گرگ کو ہے برہ معصوم کی تلاش!
*
اے وائے آبروئے کلیسا کا آئنہ
روما نے کر دیا سر بازار پاش پاش
*
پیر کلیسیا ! یہ حقیقت ہے دلخراش!
***