انتداب
کہاں فرشتۂ تہذیب کی ضرورت ہے
نہیں زمانۂ حاضر کو اس میں دشواری
*
جہاں قمار نہیں ، زن تنک لباس نہیں
جہاں حرام بتاتے ہیں شغل مے خواری
*
بدن میں گرچہ ہے اک روح ناشکیب و عمیق
طریقۂ اب و جد سے نہیں ہے بیزاری
*
جسور و زیرک و پردم ہے بچۂ بدوی
نہیں ہے فیض مکاتب کا چشمۂ جاری
*
نظروران فرنگی کا ہے یہی فتوی
وہ سرزمیں مدنیت سے ہے ابھی عاری
***