لادین سیاست
جو بات حق ہو ، وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی
خدا نے مجھ کو دیا ہے دل خبیر و بصیر
*
مری نگاہ میں ہے یہ سیاست لا دیں
کنیز اہرمن و دوں نہاد و مردہ ضمیر
*
ہوئی ہے ترک کلیسا سے حاکمی آزاد
فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر
*
متاع غیر پہ ہوتی ہے جب نظر اس کی
تو ہیں ہراول لشکر کلیسیا کے سفیر
***
دام تہذیب
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار
*
یہ پیر کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے
بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار
*
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار
*
ترکان 'جفا پیشہ' کے پنجے سے نکل کر
بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار
***