زمین و آسماں
ممکن ہے کہ تو جس کو سمجھتا ہے بہاراں
اوروں کی نگاہوں میں وہ موسم ہو خزاں کا
*
ہے سلسلۂ احوال کا ہر لحظہ دگرگوں
اے سالک رہ! فکر نہ کر سود و زیاں کا
*
شاید کہ زمیں ہے یہ کسی اور جہاں کی
تو جس کو سمجھتا ہے فلک اپنے جہاں کا!
***
مسلمان کا زوال
اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے میسر، تو نگری سے نہیں
*
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
*
سبب کچھ اور ہے، تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
*
اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا
قلندری سے ہوا ہے، تو نگری سے نہیں
***