11%

(۱۶)

قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی

ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے ، خدائی!

*

جو فقر ہوا تلخی دوراں کا گلہ مند

اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی

*

اس دور میں بھی مرد خدا کو ہے میسر

جو معجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائی

*

در معرکہ بے سوز تو ذوقے نتواں یافت

اے بندۂ مومن تو کجائی ، تو کجائی

*

خورشید ! سرا پردۂ مشرق سے نکل کر

پہنا مرے کہسار کو ملبوس حنائی

***