(۱۶)
قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے ، خدائی!
*
جو فقر ہوا تلخی دوراں کا گلہ مند
اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
*
اس دور میں بھی مرد خدا کو ہے میسر
جو معجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائی
*
در معرکہ بے سوز تو ذوقے نتواں یافت
اے بندۂ مومن تو کجائی ، تو کجائی
*
خورشید ! سرا پردۂ مشرق سے نکل کر
پہنا مرے کہسار کو ملبوس حنائی
***