(۱۷)
آگ اس کی پھونک دیتی ہے برنا و پیر کو
لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحب یقیں
*
ہوتا ہے کوہ و دشت میں پیدا کبھی کبھی
وہ مرد جس کا فقر خزف کو کرے نگیں
*
تو اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خامۂ حق نے تری جبیں
*
یہ نیلگوں فضا جسے کہتے ہیں آسماں
ہمت ہو پر کشا تو حقیقت میں کچھ نہیں
*
بالائے سر رہا تو ہے نام اس کا آسماں
زیر پر آگیا تو یہی آسماں ، زمیں!
***