فقر و ملوکیت
فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے
ضرب کاری ہے، اگر سینے میں ہے قلب سلیم
*
اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے
تازہ ہر عہد میں ہے قصۂ فرعون و کلیم
*
اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقر غیور
کھا گئی روح فرنگی کو ہوائے زروسیم
*
عشق و مستی نے کیا ضبط نفس مجھ پہ حرام
کہ گرہ غنچے کی کھلتی نہیں بے موج نسیم
***
اسلام
روح اسلام کی ہے نور خودی ، نار خودی
زندگانی کے لیے نار خودی نور و حضور
*
یہی ہر چیز کی تقویم ، یہی اصل نمود
گرچہ اس روح کو فطرت نے رکھا ہے مستور
*
لفظ 'اسلام، سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے 'فقر غیور
***