(۲)
تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود
مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا
*
وجود کیا ہے، فقط جوہر خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا
***
تصوف
یہ حکمت ملکوتی، یہ علم لاہوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
*
یہ ذکر نیم شبی ، یہ مراقبے ، یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
*
یہ عقل، جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار
شریک شورش پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
*
خرد نے کہہ بھی دیا 'لا الہ' تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
*
عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری
فروغ صبح پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
***