غزل
دل مردہ دل نہیں ہے،اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ
*
ترا بحر پر سکوں ہے، یہ سکوں ہے یا فسوں ہے؟
نہ نہنگ ہے، نہ طوفاں، نہ خرابی کنارہ!
*
تو ضمیر آسماں سے ابھی آشنا نہیں ہے
نہیں بے قرار کرتا تجھے غمزۂ ستارہ
*
ترے نیستاں میں ڈالا مرے نغمۂ سحر نے
مری خاک پے سپر میں جو نہاں تھا اک شرارہ
*
نظر آئے گا اسی کو یہ جہان دوش و فردا
جسے آ گئی میسر مری شوخی نظارہ
***