قبر
مرقد کا شبستاں بھی اسے راس نہ آیا
آرام قلندر کو تہ خاک نہیں ہے
*
خاموشی افلاک تو ہے قبر میں لیکن
بے قیدی و پہنائی افلاک نہیں ہے
***
قلندر کی پہچان
کہتا ہے زمانے سے یہ درویش جواں مرد
جاتا ہے جدھر بندۂ حق، تو بھی ادھر جا!
*
ہنگامے ہیں میرے تری طاقت سے زیادہ
بچتا ہوا بنگاہ قلندر سے گزر جا
*
میں کشتی و ملاح کا محتاج نہ ہوں گا
چڑھتا ہوا دریا ہے اگر تو تو اتر جا
*
توڑا نہیں جادو مری تکبیر نے تیرا؟
ہے تجھ میں مکر جانے کی جرأت تو مکر جا!
*
مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں، راکب ہے قلندر
***