اے پیر حرم
اے پیر حرم! رسم و رہ خانقہی چھوڑ
مقصود سمجھ میری نوائے سحری کا
*
اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت!
دے ان کو سبق خود شکنی ، خود نگری کا
*
تو ان کو سکھا خارا شگافی کے طریقے
مغرب نے سکھایا انھیں فن شیشہ گری کا
*
دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا
*
کہہ جاتا ہوں میں زور جنوں میں ترے اسرار
مجھ کو بھی صلہ دے مری آشفتہ سری کا!
***