آگاہی
نظر سپہر پہ رکھتا ہے جو ستارہ شناس
نہیں ہے اپنی خودی کے مقام سے آگاہ
*
خودی کو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا
وہی ہے مملکت صبح و شام سے آگاہ
*
وہی نگاہ کے ناخوب و خوب سے محرم
وہی ہے دل کے حلال و حرام سے آگاہ
***
مصلحین مشرق
میں ہوں نومید تیرے ساقیان سامری فن سے
کہ بزم خاوراں میں لے کے آئے ساتگیں خالی
*
نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے جیب و دامن میں
پرانی بجلیوں سے بھی ہے جن کی آستیں خالی!
***
مغربی تہذیب
فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
*
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک و خیال بلند و ذوق لطیف
***