امتحان
کہا پہاڑ کی ندی نے سنگ ریزے سے
فتادگی و سر افگندگی تری معراج!
*
ترا یہ حال کہ پامال و درد مند ہے تو
مری یہ شان کہ دریا بھی ہے مرا محتاج
*
جہاں میں تو کسی دیوار سے نہ ٹکرایا
کسے خبر کہ تو ہے سنگ خارہ یا کہ زجاج
***
مدرسہ
عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا ، جس نے
قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر معاش
*
دل لرزتا ہے حریفانہ کشاکش سے ترا
زندگی موت ہے، کھو دیتی ہے جب ذوق خراش
*
اس جنوں سے تجھے تعلیم نے بیگانہ کیا
جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش
*
فیض فطرت نے تجھے دیدۂ شاہیں بخشا
جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہ خفاش
*
مدرسے نے تری آنکھوں سے چھپایا جن کو
خلوت کوہ و بیاباں میں وہ اسرار ہیں فاش
***