غزل
ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
*
میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندۂ حر کے لیے جہاں میں فراغ
*
فروغ مغربیاں خیرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحب 'مازاغ'
*
وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس
چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ
*
کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ
***