(۳)
مومن پہ گراں ہیں یہ شب و روز
دین و دولت ، قمار بازی!
*
ناپید ہے بندۂ عمل مست
باقی ہے فقط نفس درازی
*
ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقر
جس فقر کی اصل ہے حجازی
*
اس فقر سے آدمی میں پیدا
اللہ کی شان بے نیازی
*
کنجشک و حمام کے لیے موت
ہے اس کا مقام شاہبازی
*
روشن اس سے خرد کی آنکھیں
بے سرمۂ بو علی و رازی
*
حاصل اس کا شکوۂ محمود
فطرت میں اگر نہ ہو ایازی
*