تیری دنیا کا یہ سرافیل
رکھتا نہیں ذوق نے نوازی
*
ہے اس کی نگاہ عالم آشوب
درپردہ تمام کارسازی
*
یہ فقر غیور جس نے پایا
بے تیغ و سناں ہے مرد غازی
*
مومن کی اسی میں ہے امیری
اللہ سے مانگ یہ فقیری
***
مرد فرنگ
ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا
مگر یہ مسئلۂ زن رہا وہیں کا وہیں
*
قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں
*
فساد کا ہے فرنگی معاشرت پہ ظہور
کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں
***