خلوت
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ ، آئنۂ دل ہے مکدر
*
بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے
ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
*
آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرۂ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر
*
خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر ، و لیکن
خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر
***
عورت
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
*
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
*
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی ، لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
***