11%

شعاع امید

(۱)

سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام

دنیا ہے عجب چیز ، کبھی صبح کبھی شام

*

مدت سے تم آوارہ ہو پہنائے فضا میں

بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بے مہری ایام

*

نے ریت کے ذروں پہ چمکنے میں ہے راحت

نے مثل صبا طوف گل و لالہ میں آرام

*

پھر میرے تجلی کدۂ دل میں سما جاؤ

چھوڑو چمنستان و بیابان و در و بام

(۲)

آفاق کے ہر گوشے سے اٹھتی ہیں شعاعیں

بچھڑے ہوئے خورشید سے ہوتی ہیں ہم آغوش

*

اک شور ہے ، مغرب میں اجالا نہیں ممکن

افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے ہے سیہ پوش

*

مشرق نہیں گو لذت نظارہ سے محروم

لیکن صفت عالم لاہوت ہے خاموش

*

پھر ہم کو اسی سینۂ روشن میں چھپا لے

اے مہر جہاں تاب ! نہ کر ہم کو فراموش

***