شعاع امید
(۱)
سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام
دنیا ہے عجب چیز ، کبھی صبح کبھی شام
*
مدت سے تم آوارہ ہو پہنائے فضا میں
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بے مہری ایام
*
نے ریت کے ذروں پہ چمکنے میں ہے راحت
نے مثل صبا طوف گل و لالہ میں آرام
*
پھر میرے تجلی کدۂ دل میں سما جاؤ
چھوڑو چمنستان و بیابان و در و بام
(۲)
آفاق کے ہر گوشے سے اٹھتی ہیں شعاعیں
بچھڑے ہوئے خورشید سے ہوتی ہیں ہم آغوش
*
اک شور ہے ، مغرب میں اجالا نہیں ممکن
افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے ہے سیہ پوش
*
مشرق نہیں گو لذت نظارہ سے محروم
لیکن صفت عالم لاہوت ہے خاموش
*
پھر ہم کو اسی سینۂ روشن میں چھپا لے
اے مہر جہاں تاب ! نہ کر ہم کو فراموش
***