نگاہ شوق
یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا
کہ ذرے ذرے میں ہے ذوق آشکارائی
*
کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں
نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی
*
اسی نگاہ سے محکوم قوم کے فرزند
ہوئے جہاں میں سزاوار کار فرمائی
*
اسی نگاہ میں ہے قاہری و جباری
اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی
*
اسی نگاہ سے ہر ذرے کو ، جنوں میرا
سکھا رہا ہے رہ و رسم دشت پیمائی
*
نگاہ شوق میسر نہیں اگر تجھ کو
ترا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی
***