غزل
دریا میں موتی ، اے موج بے باک
ساحل کی سوغات ! خاروخس و خاک
*
میرے شرر میں بجلی کے جوہر
لیکن نیستاں تیرا ہے نم ناک
*
تیرا زمانہ ، تاثیر تیری
ناداں ! نہیں یہ تاثیر افلاک
*
ایسا جنوں بھی دیکھا ہے میں نے
جس نے سیے ہیں تقدیر کے چاک
*
کامل وہی ہے رندی کے فن میں
مستی ہے جس کی بے منت تاک
*
رکھتا ہے اب تک میخانۂ شرق
وہ مے کہ جس سے روشن ہو ادراک
*
اہل نظر ہیں یورپ سے نومید
ان امتوں کے باطن نہیں پاک
***