باب ہشتُم
پھیلتی ہوئی کائنات ( Expanding Universe ) کا قرآنی نظریہ
قرآنِ مجید نے جہاں طبیعی کائنات کی تخلیق کی نسبت چند اہم حقائق بیان کئے ہیں وہاں اُس کے اِختتام کی بعض خصوصی علامات کا بھی ذکر کیا ہے جن کی تائید و تصدیق مکمل طور پر جدید سائنس کے ذریعے ہو رہی ہے۔ ہم پہلے جدید سائنس کی تحقیقات و اکتشافات کا خلاصہ درج کریں گے تاکہ اصل تصور واضح ہو جائے۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ دورِ حاضر کے سائنس دانوں کی رائے میں اِس مادّی اور طبیعی کائنات ( physical universe ) کا آغاز اَجرامِ سماوی کی تخلیق و تقسیم کے جس عمل سے ہوا وہ آج سے تقریباً ۱۵ ارب برس پہلے رونما ہوا اور اُس کا اِختتام آج سے تقریباً ۶۵ارب برس بعد ہو گا۔
تخلیقِ کائنات کے بعد اُس کی مسلسل توسیع و اِرتقاء اور بالآخر اُس کے انجام کے بارے میں موجودہ سائنسی تحقیق Oscillating Universe Theory کی شکل میں سامنے آئی ہے۔
کائنات کی بیکرانی
آئیے اَب اِس وسیع و عریض کائنات کی ساخت، اِرتقاء و عمل اور پھیلاؤ کے بارے میں ذرا غور و فکر کریں۔ تمام اَجرامِ فلکی سمیت زمین، سورج، سِتارے اور سیارے کائنات میں محض چھوٹے چھوٹے نقطوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارا سورج ایک ایسی کہکشاں کا سِتارہ ہے جو اِس جیسے اور اِس سے بڑے ایک کھرب سِتاروں پر مشتمل ہے اوراِس کائنات میں اُس جیسی اربوں کہکشائیں مزید بھی پائی جاتی ہیں۔ اَب تک کی جستجو سے معلوم کردہ دُوسری کہکشاؤں کے بعید ترین اَجسام ہم سے تقریباً۱۶ارب نوری سال (تقریباً ۹۳,۹۱,۲۸,۴۶,۳۳,۶۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰,۰۰۰ میل) کی مسافت پر واقع ہیں۔ اُن کی شعاع ریزی ( radiation ) نہ صرف زمین بلکہ شاید ہماری کہکشاں کی تخلیق سے بھی پہلے اپنا سفر شروع کر چکی تھی۔ اِس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ہماری کہکشاں کائنات کی اوّلیں تخلیق کے وقت ہی پیدا نہیں ہو گئی تھی بلکہ اُس کی پیدائش کائنات کی تخلیق سے کافی عرصہ بعد عمل میں آئی اور دُوسری بہت سی کہکشائیں اُس سے عمر میں بڑی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری کہکشاں دُوسری یا تیسری نسل کی نمائندہ ہو۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ آج یہ جس مادّہ پر مبنی ہے اُسی مادّہ پر ایک یا زائد کہکشائیں اِس سے قبل بھی مشتمل رہ چکی ہیں۔ جن میں واقع لاکھوں کروڑوں سورجوں کے گرد گردِش کناں سیاروں کی مخلوقات اپنے دَور کی قیامت کے بعد فنا ہو چکی ہیں۔جب وہ اپنی زِندگی پوری کر چکیں تو اُنہی کے متروکہ مادّے سے ہماری کہکشاں ’ملکی وے‘ ( Milky Way )نے جنم لیا۔
سورج کے بعد ہم سے قریب ترین سِتارہ ’پروگزیما سنچری‘ ( Proxima Centauri ) ہے، جو ہم سے تقریباً ۴.۲نوری سال کی مسافت پر واقع ہے، جو تقریباً ۲۴.۶۸ کھرب میل کے مساوی ہے۔ (اُس کی رَوشنی ہم تک پہنچنے میں ۴سال سے زیادہ عرصہ صرف کرتی ہے۔) ہمارا سورج ہم سے ۸.۳ نوری منٹ کے فاصلے پر واقع ہے،جو تقریباً ۹,۲۷,۷۲,۹۳۴.۵۸ میل یعنی ۱۴,۹۲,۹۶,۶۴۴ کلومیٹر کے مساوی ہے۔ (اُس کی رَوشنی ہم تک پہنچنے میں ۸.۳ منٹ کا وقت صرف کرتی ہے۔) اکثر سِتارے جو ہمیں نارمل آنکھ سے دِکھائی دے جاتے ہیں وہ کئی سو نوری سال کی دُوری پر واقع ہیں۔
توسیعِ کائنات ۔ ۔ ۔ ایک سائنسی دریافت
کائنات کے مسلسل وسیع تر ہوتے چلے جانے کے بارے میں ہماری تحقیقات ۱۹۲۴ء سے زیادہ قدیم نہیں، جب ایک ماہرِ فلکیات ایڈوِن ہبل ( Edwin Hubble ) نے یہ اِنکشاف کیا کہ ہماری کہکشاں اِکلوتی نہیں ہے۔ کائنات میں دُوسری بہت سی کہکشائیں بھی اپنے مابین وسیع و عریض علاقے خالی چھوڑے ہوئے موجود ہیں، جو ایک دُوسرے کی مخالف سمت میں یوں حرکت کر رہی ہیں کہ آپس میں فاصلہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ اُن کی رفتار میں بھی اِضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ایسا دِکھائی دیتا ہے کہ کہکشاؤں کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ پوری کائنات بھی پھیلتی چلی گئی ہے اور کہکشاؤں کے مابین پایا جانے والا فاصلہ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔
ڈاکٹر ہبل نے کائنات کی وُسعت پذیری کا یہ راز رَوشنی کے ’سرخ ہٹاؤ‘ ( red shift ) کے کہکشاؤں کے ساتھ موازنے کے ذریعے دریافت کیا۔ اُس نے مسلسل بڑھنے والے فاصلوں کی درُستگی کو ’قانونِ ہبل‘ ( Hubble's Law ) اور پھیلاؤ کی حقیقی شرح کے ذریعے ثابت کیا، جسے ہبل کے غیر متغیر اُصول ( Hubble's Constant ) کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ دریافت بیسویں صدی کے عظیم شعوری اِنقلابات میں سے ایک ہے۔ چنانچہ اَب ہم اِس قابل ہو چکے ہیں کہ ’ڈاپلر اثر‘ ( Doppler Effect ) کے ذریعے کائنات اور کہکشاؤں کے پھیلاؤ کی موجودہ شرح کو متعین کر سکیں۔ اَب ہم سب اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کائنات ہر ایک ارب سال میں ۵سے ۱۰ فیصد کی شرح کے ساتھ پھیل رہی ہے۔
ڈاپلر اثر ( Doppler Effect )کی ایک عام فہم مثال
کسی جرمِ فلکی کی روشنی یا برقی مقناطیسی لہروں کا اُس جسم کے ناظر سے دُور بھاگنا یا کائنات کے ’عظیم اِبتدائی دھماکے‘ ( Big Bang ) کی وجہ سے طویل الموج ہونا ’ریڈشفٹ‘ یا ’سرخ ہٹاؤ‘ کہلاتا ہے۔ ایسا ’ڈاپلر اثر‘ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اِس کی سادہ مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ جیسے کسی گاڑی کے آگے پیچھے ہر طرف سپرنگ باندھ کر اُسے تیزی سے دوڑایا جائے تو اُس کی تیز رفتاری کے باعث اگلے سپرنگ دب کر سکڑے ہوئے جبکہ پچھلی طرف بندھے سپرنگ کھنچ کر لمبے ہوتے نظر آئیں گے۔ بالکل اِسی طرح جب کوئی ستارہ، کہکشاں یا کوئی اور جِرمِ فلکی اپنے چاروں طرف بیک وقت ایک سی شعاع ریزی کرتے ہوئے ہم سے دُور بھاگا چلا جا رہا ہو تو اُس کی پچھلی سمت سے نکلنے والی روشنی کی موجیں اپنے اصل طول سے قدرے لمبی دِکھائی دیں گی اور ہماری طرف آنے والے اَجرام سے نکلنے والی روشنی کی موجیں اپنے اصل طول سے قدرے سکڑی ہوئی نظر آئیں گی۔ ہم سے دُور بھاگنے والی کہکشاؤں کی لہریں ’طویل الموج‘ ہو کر رنگت میں ’سرخی مائل‘ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ جبکہ ہماری سمت آنے والے اَجرامِ فلکی کی روشنی کی لہریں ’قصیرالموج‘ ہو کر رنگت میں ’بنفشی مائل‘ ہو جاتی ہیں۔ اِسی کو ’ڈاپلر اثر‘ ( doppler effect ) کہتے ہیں۔
یہ تحقیق سب سے پہلے آسٹریلوی ماہرِ طبیعیات ’کرسچین ڈاپلر‘ (۱۸۰۳-۱۸۵۳) نے منظرِ عام پر لائی۔ کسی خاص عنصر کے حامل سیارے سے نکلنے والی روشنی کا رنگ اُس عنصر کے حقیقی رنگ کی نسبت مائل بہ سرخ ہونے کے تناسب سے اِس بات کا بخوبی اَندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ستارہ ہم سے کس رفتار سے کس سمت دُور جا رہا ہے۔ مجموعی طور پر تمام کہکشائیں ’بگ بینگ‘ کے اثر سے ایک دُوسرے سے دُور بھاگ رہی ہیں جس کا اندازہ ’ایڈوِن ہبل‘ نے ۱۹۲۴ء میں تقریباً تمام کہکشاؤں کی روشنی میں پائے جانے والے ’سرخ ہٹاؤ‘ ( Red Shift ) ہی کے ذریعے لگایا تھا۔
وُسعت پذیر کائنات کا قرآنی نظریہ
یہ بات اِنتہائی قابلِ توجہ ہے کہ سائنس نے جو دریافتیں بیسویں صدی، بالخصوص اُس کی چند آخری دہائیوں میں حاصل کی ہیں، قرآنِ مجید اُنہیں آج سے ۱,۴۰۰ سال پہلے بیان کر چکا ہے۔ قرآنِ مجید نے کائنات کی وُسعت پذیری کا اُصول سورۂ فاطر میں کچھ اِس طرح سے بیان کیا ہے:
( اَلحَمدُ ِللهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ یَزِیدُ فِی الخَلقِ مَا یَشآء إِنَّ ﷲ عَلٰی کُلِّ شَئ قَدیرٌ ) (فاطر،۳۵:۱)
تمام تعریف ﷲ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں اور زمین کو (بلا نمونے کے اِبتداءً) بنانے والا ہے ۔ ۔ ۔ وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے بڑھاتا جاتا ہے۔ بے شک ﷲ ہر شے پر قادِر ہےاِسی سائنسی حقیقت کو قرآنِ حکیم نے سورۃُ الذّاریات میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ یوں ذِکر کیا ہے:
( وَ السَّمَآءَ بَنَینَاهَا بِأَیدٍ وَّ إِنَّا لَمُوسِعُونَ ) (الذّاریات،۵۱:۴۷)
اور ہم نے آسمان (کائنات کے سماوی طبقات) کو طاقت (توانائی) سے بنایا ہے اور بلاشبہ ہم کائنات کو پھیلاتے چلے جا رہے ہیںاِس آیتِ کریمہ نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا کہ کائنات، جسے ﷲ ربّ العزّت نے طاقت اور توانائی کے ساتھ تخلیق کیا ہے، وسیع تر انداز میں ہر سمت پھیلتی اور بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ "لَمُوسِعُون" کا لفظ خود وُسعت پذیری کے معنی پر واضح دلالت کرتا ہے۔ قرآنِ مجید وُسعت پذیری کے عمل کو تخلیقِ کائنات کا تسلسل قرار دیتا ہے۔ سورۃُ النّحل میں اِرشاد فرمایا گیا:
( وَ یَخلُقُ مَا لاَ تَعلَمُونَ ) (النّحل،۱۶:۸)
اور وہ پیدا فرماتا جا رہا ہے جسے تم نہیں جانتےمغربی دُنیا کے سائنسدانوں اور سائنس کے طلباء کے لئے یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ آج سے ۱۴صدیاں قبل۔ ۔ ۔ جب کائنات کے مجرّد اور غیر متحرک ہونے کا نظریہ تمام دُنیا میں تسلیم کیا جاتا تھا۔ ۔ ۔ علمِ فلکی طبیعیات ( astrophysics ) اور علمِ تخلیقیات ( cosmology ) کے اِس جدید نظریہ سے قرآنِ مجید نے کس طرح اِنسانیت کو آگاہ کیا! جبکہ کائنات کے جمود کا نظریہ اِس قدر مستحکم تھا کہ وہ بیسویں صدی کے اَوائل تک دُنیا بھر میں ناقابلِ تردید حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ ’نیوٹن‘ کا قانونِ تجاذُب حقیقت تک رسائی حاصل نہ کر سکا۔ حتیٰ کہ ’آئن سٹائن‘ نے بھی ۱۹۱۵ء میں جب اپنا ’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ ( General Theory of Relativity ) پیش کیا تو اُس وقت تک اُسے ’نظریۂ جمودِ کائنات‘ پر اِتنا پختہ یقین تھا کہ اُس نے اُس نظریئے کی مساوات میں مشہورِ عالم ’تخلیقیاتی مستقل‘ ( cosmological constant )کو مُتعارف کراتے ہوئے اپنے نظریئے میں ممکنہ حد تک تبدیلی کر دی۔
دَرحقیقت رُوسی ماہرِ طبیعیات اور ریاضی دان ’الیگزینڈر فرائیڈ مین‘ ( Alexander Friedmann ) وہ شخص تھا جس نے ۱۹۲۲ء میں پہلی بار کائنات کی وُسعت پذیری کا مفروضہ پیش کیا، جسے بعد میں ۱۹۲۹ء میں ’ایڈوِن ہبل‘ نے سائنسی بنیادوں پر پروان چڑھایا اور بالآخر ۱۹۶۵ء میں دو امریکی ماہرینِ طبیعیات ’آرنوپنزیاس‘ ( Arno Penzias ) اور ’رابرٹ وِلسن‘ ( Robert Wilson ) نے اُسے ثابت کیا۔ یہ دونوں سائنسدان امریکہ کی ریاست نیوجرسی میں واقع ’بیل فون لیبارٹریز‘ میں کام کرتے تھے، جنہیں ۱۹۷۸ء میں نوبل پرائز سے بھی سرفراز کیا گیا۔ یہ بلا شک و شبہ قرآنِ مجید کا ایک سائنسی معجزہ ہے۔