7%

آیت 50:

(50) وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُونِی بِهِ فَلَمَّا جَاءَ هُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَ اللاَّتِی قَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنَّ إِنَّ رَبِّی بِکَیْدِهِنَّ عَلِیمٌ

''(یہ تعبیر سنتے ہی)بادشاہ نے حکم دیاکہ یوسف کو میرے حضور میں لے اور پھر جب (شاہی)چوبدار (یہ حکم لے کر)یوسف کے پاس آیا تو یوسف نے کہا تم اپنے بادشاہ کے پا س لوٹ ج اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا مسئلہ کیا تھا جنہوں نے (مجھے دیکھ کر) اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے ؟ آیا میں ان کا طالب تھا یا وہ (میری) ،اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ میرا پروردگار ہی ان کے مکروفریب سے خوب واقف ہے''۔

نکات:

جناب یوسف (ع)نے بادشاہ کے خواب کی تعبیر اور سنجیدہ و منظم پروگرام، بغیر کسی شرط و قید کے بیان کرکے ثابت کردیا کہ وہ کوئی معمولی قیدی نہیں ہیں بلکہ ایک غیر معمولی اور دانا انسان ہیں ۔

جب بادشاہ کا فرستادہ حضرت یوسف (ع)کی خدمت میں آیا تو آپ (ع)نے آزادی کی خبر کا خیر مقدم نہیں کیا بلکہ سابقہ فائل پر دوبارہ تحقیق کی درخواست کی، اس لئے کہ آپ (ع) نہیں چاہتے تھے کہ بادشاہ کا عفو آپ (ع)کے شامل حال ہو بلکہ یہ چاہتے تھے کہ آپ (ع)کی بے گناہی اور پاکدامنی ثابت ہوجائے تاکہ بادشاہ کو سمجھا سکیں کہ تمہاری حکومت میں کس قدر فساد اور ناانصافی کارفرما ہے۔