7%

آیت 53:

(53) وَمَا أُبَرِّیئُ نَفْسِی إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّی إِنَّ رَبِّی غَفُورٌ رَّحِیمٌ

''اور میں اپنے نفس کی صفائی پیش نہیں کرتا کیونکہ (انسانی) نفس برائی پر اکساتا ہے مگریہ کہ میرا پروردگار رحم کرے بے شک میرا پروردگار بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے''۔

نکات:

قرآن مجید میں نفس کی مختلف حالتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

1۔ نفس امارہ: یہ نفس انسان کو برائی کی طرف لے جاتا ہے اگر عقل و ایمان کے ذریعہ لگام نہ لگائی جائے تو انسان یک بارگی ذلت و ہلاکت میں گر جائے گا ۔

2۔ نفس لوّامہ : یہ وہ نفسانی حالت ہے جس کی بنیاد پر برائی کرنے والا انسان خود اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے ، تو بہ اورعذر خواہی کی طرف قدم بڑھاتا ہے، سورہ قیامت میں اس نفس کا تذکرہ ہے۔

3۔ نفس مطمئنہ: یہ وہ نفسانی حالت ہے کہ جو انبیاء و اولیائے الٰہی اور ان کے حقیقی تریبت یافتہ افراد کو حاصل ہوتی ہے جس کی بنیاد پر وہ ہر وسوسے اور حادثے سے کامیاب و کامران پلٹتے ہیں ایسے افراد فقط خدا سے لو لگائے رہتے ہیں ۔

حضرت یوسف علیہ السلام اس امتحان میں اپنی سربلندی اور عدم خیانت کو خداوندعالم کے لطف کرم کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں اور ایک انسان ہونے کی بنیاد پر جس میں انسانی خصلت موجود ہے خود کو اس سے الگ نہیں سمجھ رہے ہیں۔

متعدد روایات میں نفس کے خطرات اور خود کو بری الذمہ قرار دینے نیز نفس سے راضی ہونے کا تذکرہ موجود ہے اپنے نفس سے راضی ہونے کو روایات میں عقل کا دیوانہ پن اور شیطان کا سب سے بڑا پھندہ قراردیا گیا ہے(1)

--------------

( 1 )غررالحکم.