1۔ کبھی بھی اپنے آپ کو پاکباز اور خواہشات نفسانی سے محفوظ قرار نہیں دینا چاہیئے ۔(وَمَا أُبَرِّیئُ نَفْسِی )
2۔ شرط کمال یہ ہے کہ اگرچہ ساری دنیا اسے کامل سمجھ رہی ہو لیکن وہ شخص کبھی خود کو کامل نہ سمجھے ۔ حضرت یوسف (ع)کی داستان میں برادران یوسف ، عزیز مصر کی بیوی ، گواہ ، بادشاہ ، شیطان ، قیدی، سب کے سب آپکی پاکدامنی کی گواہی دے رہے ہیں لیکن آپ (ع)خود فرما رہے تھے کہ۔(مَا أُبَرِّیئُ نَفْسِی )
3۔ ہوا و ہوس اور نفس کا خطرہ بہت ہی خطرناک ہے اسے کھیل نہیں سمجھنا چاہیئے۔( إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَ بِالسُّوئِ) (1)
4۔ انبیاء (ع)، معصوم ہونے کے باوجود انسانی فطری غرائز کے حامل ہیں۔( إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَ بِالسُّوئِ)
5۔ نفس اپنی خواہشات کی باربار تکرار کرتا ہے تاکہ تمہیں مصیبت میں گرفتار کردے۔(لَأَمَّارَ )
6۔ اگر خداوندعالم کا لطف و کرم نہ ہو تو فطرت انسانی منفی امور کی طرف زیادہ میلان رکھتی ہے ۔(2) ( لَأَمَّارَ بِالسُّوئِ)
7۔ فقط رحمت خداوندی ہی سرمایہ نجات ہے اگر انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ قعر ضلالت و گمراہی میں گر پڑے گا۔( إِلاَّ مَا رَحِم)
8۔جناب یوسف (ع)خداوندعالم کی خاص تربیت کے زیر سایہ تھے لہٰذا کلمہ(رَبِّی) کی تکرار ہوئی ہے۔
9۔ مربی کو رحمت اور مہربانی سے کام لینا چاہیئے ۔( إِنَّ رَبِّی غَفُورٌ رَحِیمٌ )
10۔ عفو و درگزر رحمت الٰہی تک پہنچنے کا مقدمہ ہے پہلے(غَفُور)فرمایا ہے بعد میں(رَحِیم) کا ذکر ہے۔
11۔ تمام خطرات کے باوجود رحمت الٰہی سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔( غَفُورٌ رَحِیمٌ )
--------------
( 1 ) آیہ شریفہ میں چار طریقوں سے تاکید کی گئی ہے ۔إِنّ ۔ لام تاکید ۔ صیغہ مبالغہ۔ جملہ اسمیہ.
( 2 )امام سجاد علیہ السلام نے مناجات شاکین میں نفس کے لئے 15 پندرہ خطرے ذکر کئےے ہیں جن کی طرف توجہ رکھنا ضروری ہے.