7%

آیت 69:

(69)وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ آوَی إِلَیْهِ أَخَاهُ قَالَ إِنِّی أَنَا أَخُوکَ فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ

''اور جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو اپنے پاس جگہ دی اور (چپکے سے ) اس (بنیامین) سے کہہ دیا کہ میں تمہارا بھائی ہوں تو جوکچھ (بدسلوکیاں) یہ لوگ تمہارے ساتھ کرتے رہے ہیں اسکا رنج نہ کرو ''۔

نکات:

تفسیروں میں مذکور ہے کہ جب برادران یوسف (ع)وارد مصر ہوئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کی مہمان نوازی فرمائی جس میں ہر دو آدمیوں کے لئے غذا کا ایک طبق معین کردیا آخر میں بنیامین تنہا رہ گئے تو حضرت یوسف (ع)نے ان کو اپنے نزدیک بٹھا لیا اس کے بعد ہر دو آدمیوں کے لئے ایک کمرہ معین کیا تو پھر بنیامین تنہا رہ گئے تو انہیں اپنے حجرے میں رکھ لیا وہاں بنیامین نے اپنے بھائیوں کی بے وفائی اور ظلم و ستم کا ذکر چھیڑ دیا جو انہوں نے حضرت یوسف (ع)پر ڈھائے تھے یہاں پر کاسہ صبر یوسفی لبریز ہوگیا ۔ فرمایا: پریشان مت ہو میں وہی یوسف ہوں اور تاکید کے ساتھ فرمایا۔(انی انا اخوک) میں ہی تمہارا بھائی ہوں تاکہ ایسا کوئی احتمال نہ آئے کہ میں تمہارے بھائی کی جگہ پر ہوں۔

جملہ(فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُون ) کے معنی کے سلسلے میں دو احتمال ہیں ۔

1۔ یا تو یہ کہ وہ اپنے بھائیوں کی گزشتہ کارستانیوں سے غمناک نہ ہو۔

2۔ یا یہ کہ وہ پروگرام جسے ہمارے غلاموں نے تمہارے لئے بنایا ہے کہ تمہارے حصے میں پیمانہ ڈال دیں گے تاکہ تم میرے پاس رہ سکو اس سے پریشان نہ ہونا۔