7%

آیت 72:

(72) قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِکِ وَلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِیمٌ

'' ان لوگوںنے جواب دیاکہ ہمیں بادشاہ کا پیالہ نہیں ملتا ہے جو شخص اسے پیش کرے گا اس کےلئے بارشتر(غلہ انعام) ہے اور میں اس کا ضامن ہوں''۔

نکات:

'' صُوَاعَ '' (1) اور''سقایہ''دونوں ہم معنی ہیں یعنی وہ ظرف جس سے پانی پیا جاتا ہو اور اسی سے گیہوں بھی تولا جاتا ہو جو صرفہ جوئی کی علامت ہے یعنی ایک چیز سے چند کام۔

''حِملْ'' بار کو کہتے ہیں ''حَمل'' بھی بار ہی کو کہتے ہیں لیکن اس بار کو جو پوشیدہ ہو مثلاًوہ بارش جو بادل میں چھپی ہو یا وہ بچہ جو شکم مادر میں ہو(2)

جملہ''َلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیر'' یعنی جو ایسا کرے گا اس کی جزا یہ ہو گی اسے فقہی اصطلاح میں''جُعاله '' کہتے ہیںجو سابقہ اور قانونی اعتبار کا حامل ہے

پیام:

1۔ انعام و اکرام کی تعیین پرانی روش ہے(لِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیر)

2۔انعام و اکرام انسان اور زمانے کی مناسبت سے ہونا چاہیئے ۔ خشک سالی کے زمانے میں بہترین انعام غلے سے لدا ہوا ایک اونٹ ہے( حِمْلُ بَعِیر)

3۔ حصول اطمینان کے لئے ضامن قرار دینا تاریخی سابقہ رکھتا ہے(أَنَا بِهِ زَعِیم)

--------------

(1) تفسیر اطیب البیان میں آیا ہے کہ صواع اس ظرف کو کہتے ہیں جس میںایک صاع (تقریبا تین کلو) گیہوں کی گنجائش ہوتی ہے.

(2)مفردات راغب.