(82) وَسْئَلِ الْقَرْیَ الَّتِی کُنَّا فِیهَا وَالْعِیرَ الَّتِی أَقْبَلْنَا فِیهَا وَإِنَّا لَصَادِقُونَ
''اور (اگر ہماری باتوں پر اعتبار نہیں ہے تو)آپ اس بستی کے لوگوں سے جس میں ہم لوگ تھے پوچھ لیجئے اور اس قافلہ سے بھی جس میں ہم آئے ہیں (دریافت کرلیجئے ) اور ہم یقینا بالکل سچے ہیں ''۔
''قریہ'' فقط دیہات کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر محل اجتماع اور رہائشی علاقہ کو ''قریہ'' کہتے ہیں چاہے وہ شہر ہو یا دیہات ۔ یہاں پر یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہوسئل القریه سے مراد'' واسئل اهل القریه'' ہےں ۔یعنی اہل قریہ سے سوال کیجئے ۔
''عیر'' خوردونوش کی چیزوں کو لانے لے جانے والے کارواں کو کہا جاتا ہے۔
کل حضرت یوسف (ع)کے قتل کے سلسلے میں (کہ بھیڑیا یوسف کو کھا گیا) بھائیوں کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی لیکن یہاں پر انہوں نے اپنے دعوے کی دو دلیلیں پیش کیں(1) اہل مصر سے سوال کیجئے(2) اہل قافلہ سے سوال کیجئے کہ جن کے ساتھ ہم نے سفر کیا، علاوہ ازیں حضرت یوسف (ع)کے قتل کے واقعہ میں ان لوگوں نے''لوکنا صادقین'' کہا تھا جس میں ''لو'' تردید ، بے چینی اور سستی کی علامت ہے لیکن اس واقعہ میں کلمہ''انّا' 'اور حرف لام کو جو''لَصَادِقُونَ ''میں ہے استعمال کیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ و ہ قطعا ًسچے ہیں ۔
1۔ برا سابقہ اور جھوٹ تادم مرگ، انسان کی گفتگو قبول کرنے میں شک و تردید پیدا کردیتاہے ۔( وَاسْأَلْ الْقَرْیَ)
2۔ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے عینی شاہدوں کی گواہی ایک معتبر روش ہے۔(وَاسْأَلْ الْقَرْیَ...وَالْعِیرَ...)