7%

آیت 83:

(83) قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیلٌ عَسَی اﷲُ أَنْ یَأْتِیَنِی بِهِمْ جَمِیعًا إِنَّهُ هُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ

''(غرض جب ان لوگوں نے جاکر بیان کیا تو )یعقوب نے کہا :(اس نے چوری نہیں کی ہے)بلکہ یہ بات تم نے اپنے دل سے گڑھ لی ہے، میں توصبر جمیل (اور خدا کاشکر)کروںگا خدا سے تو مجھے امید ہے کہ میرے سب (لڑکوں) کو میرے پاس پہنچا دے بے شک وہ بڑا واقف کار حکیم ہے''۔

نکات:

جب حضرت یوسف (ع)کے بھائی بناوٹی غمگین صورت میں ٹسوے بہاتے ہوئے خون بھرا کرتا لے کر اپنے بابا کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا تو اس وقت حضرت یعقوب (ع)نے فرمایا تھا(َبَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ ) یعنی یہ تمہارا نفس ہے جس نے اس کام کو تمہارے سامنے اچھا کرکے پیش کیا ہے لیکن میں بہترین صبرکروں گا۔

اور آج اس موقع پر جب آپ (ع)کے دو فرزند (بنیامین اور بڑا بیٹا) آپ (ع)سے جدا ہوگئے تو آپ (ع)نے پھر وہی جملہ دھرایا ۔ یہاں پر ممکن ہے ایک سوال پیداہو کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے ماجرے میں تو ان لوگوں نے سازش اور خیانت کی تھی لیکن بنیامین کے سلسلے میں اس قسم کی بات نہ تھی پھر دونوں مواقع پر حضرت یعقوب (ع)کا لب ولہجہ ایک ہی کیوں ہے ؟(بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أمراً فَصَبْرٌ جَمِیل) تفسیر المیزان میں اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے: ''حضرت یعقوب (ع)بتانا چاہتے تھے کہ بنیامین کی دوری بھی تمہاری اسی پہلی حرکت کا نتیجہ ہے جو تم نے حضرت یوسف (ع)کے ساتھ انجام دی تھی یعنی یہ تمام تلخیاں اسی بدرفتاری کا نتیجہ ہیں ''۔