(87)یَابَنِیَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ یُوسُفَ وَأَخِیهِ وَلاَ تَیْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اﷲِ إِنَّهُ لاَ یَایْئَسُ مِنْ رَوْحِ اﷲِ إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ.
''اے میرے بیٹو! (ایک بار پھر مصر)ج اور یوسف اور اس کے بھائی کو (جس طرح بنے) تلاش کرو اور خدا کے فیض سے ناامید نہ ہونا کیونکہ خدا کے فیض سے کافروں کے سوا اور کوئی ناامید نہیں ہوا کرتا ''۔
کسی چیز کے بارے میں حواس کے ذریعہ جستجو کرنے کو''تحسس'' کہتے ہیں ،''تحسس'' کسی کی اچھائی کے سلسلے میں جستجو کو کہتے ہیںلیکن کسی کی برائی کے کھوج اور تلاش میں لگنے کو''تجسس'' کہتے ہیں۔
راغب اصفہانی کے بیان کے مطابق ''رَوح اور رُوح'' دونوں جان کے معنی میں استعمال ہوتے ہیںلیکن روح، فرج ، گشائش اور رحمت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے گویا مشکلات کا حل ہونا، انسان میں ایک تازہ اور نئی جان ڈال دیتا ہے، تفسیر تبیان میں ہے کہ رَوح کا مادہ ریح ہے جس طرح انسان ہوںکے جھونکوں سے سکون و اطمینان محسوس کرتا ہے اسی طرح رحمت الٰہی سے بھی شادمان ہوتا ہے ۔