1۔ جواں مردی یہ ہے کہ جرم کی جزئیات کو بیان نہ کیا جائے۔(مَا فَعَلْتُمْ)
2۔ جوان مردی یہ ہے کہ( اشاروں میں) خطا کار کو عذر خواہی کا راستہ دکھایا جائے۔( إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُون)
(90) قَالُوا أَإِنَّکَ لَأَنْتََ یُوسُفُ قَالَ أَنَا یُوسُفُ وَهذَا أَخِی قَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَیْنَا إِنَّهُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اﷲَ لاَ یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ
''(اس پر وہ لوگ چونکے اور) کہنے لگے (ہائیں)کیا تم ہی یوسف ہو ؟ یوسف نے کہا : ہاں میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ، بے شک خدانے مجھ پر احسان کیا ہے کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص (اس سے) ڈرتا ہے اور (مصیبت میں) صبر کرتا ہے تو خدا ہرگز (ایسے) نیکوکاروں کا اجر برباد نہیں کرتا ''۔ نکات:
زمانہ جتنا گزرتا جارہاتھا برادران اتنا ہی تعجب کی شدت سے مبہوت ہوئے جارہے تھے کہ عزیز مصر ہمارے بابا کے خط کو دیکھ کر کیوں رو رہے ہیں ؟ عزیز کو ماجرائے یوسف (ع)کا علم کہاں سے ہوگیا! غور سے دیکھا جائے تو اس کا چہرہ بالکل یوسف (ع)سے ملتا جلتا ہے کہیں ایسا نہ ہوکہ یہی یوسف (ع)ہو ؟ بہتر ہے کہ انہی سے پوچھ لیں اگر یہ یوسف (ع)نہ ہوئے تو کوئی ہمیں دیوانہ نہیں کہے گا لیکن اگر یہ یوسف (ع)ہوئے تو شرمندگی کی پھٹکار کا کیا ہوگا ؟ اس فکر نے بھائیوں کے وجود میں ہیجان برپا کردیا کہ ہم کیا کریں ؟ اسی ادھیڑ بن میں یکایک اس سوال سے سکوت کا طلسم ٹوٹا :أَاِنَّکَ لَأَنْتََ یُوسُفُ ۔ کیا آپ ہی یوسف(ع) ہیں اس طلسم کے ٹوٹنے کے بعد کا سماں کیسا تھا وہاں کا ماحول کیا تھا آیا کسی نقاش میں اتنی صلاحیت ہے کہ اس کا نقشہ کھینچ سکے ؟ آیا شرمندگی و خوشی ، گریہ و محبت اور آغوش پھیلا کر سمیٹ لینا ان تمام دل کش اور روح فرسا مناظر کی تصویر کشی ہوسکتی ہے ؟ اسے تو بس خدا ہی جانتا ہے اور کوئی نہیں ۔