7%

ایسا ماحول فراہم کردیا جائے کہ لوگ خود سوال کرنے لگیں ۔ رشد و تربیت کے لئے جوش و ولولہ کو بلند کرنا چاہئےے ۔ بھائیوں کے لحظہ بہ لحظہ جذبہئ جستجو اور سوال میں زیادتی ہورہی تھی ۔ اپنے آپ سے کہہ رہے تھے ۔ انہیں اصرار کیوں تھا کہ ہم بنیامین کو اپنے ساتھ لائیں؟ پیمانہ ہمارے ہی غلے میں کیوں ملا ؟ پہلی مرتبہ ہمارا پیسہ کیوں لوٹا دیا گیا یوسف (ع)کے قصہ سے یہ کیسے باخبر ہوگئے ؟ کہیں ایسا نہ ہوکہ اب ہمیں غلہ نہ دیں ؟جب یہ تمام ہیجانات ذہن پر اثر انداز ہوئے ، جب روح بلبلا اٹھی ، ذہن کی نسیں پھٹنے لگیں تو یکایک سوال کردیا : کیا آپ(ع) ہی یوسف ہیں ؟ جواب دیا: ہاں !

امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا درحقیقت حضرت قائم علیہ السلام کے سلسلے میں حضرت یوسف (ع)کی سنت ہے لوگ ان کو نہیں پہچانیں گے مگر جب خداوندعالم انہیں اجازت دے گا تو وہ خود کو پہچنوائیں گے(1)

پیام:

1۔ گزرتے وقت اور تلخ و شیریں حوادث سے روابط اور شناسائی میں تبدیلی آتی

ہے۔(أاِنَّکَ َأَنْتََ یُوسُف)

2۔ عوام کے احسانات تلخ ہیں لیکن احسانات الٰہی شیریں ہیں۔( مَنَّ اﷲُ عَلَیْنَ)

3۔ اولیائے الٰہی تمام نعمتوں کا مصدر و منبع خداوندعالم کو جانتے ہیں۔( مَنَّ اﷲُ عَلَیْنَ)

4۔ لطف خداوندی ،حکیمانہ اور معیار کے مطابق ہوتا ہے( مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اﷲَ ...)

--------------

(1)بحار الانوار ج 12 ص 283.