23%

پیام:

1۔ کشادہ قلبی ، ریاست و حکومت کا سبب ہے ۔( لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ)

2۔ جواں مردی حضرت یوسف سے سیکھنا چاہیئے جنہوں نے اپنا حق بھی معاف کردیا اور خداوندعالم سے بھی عفو و درگزرکی درخواست کی ۔( لَاتَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ یَغْفِرُ اﷲُ )

3۔ لوگوں کی خطں کو فوراً معاف کردینا چاہیئے ۔(الْیَوْمَ)

4۔ جیسے ہی برائی کرنے والا غلطی کا اعتراف کرلے اسے فوراً قبول کرلینا چاہیئے اسے زیادہ شرمندہ نہیں کرنا چاہیئے ۔(إِنْ کُنَّا لَخَاطِئِینَ قَالَ لَاتَثْرِیبَ ...)

5۔ عفو و درگزر کا اعلان کردینا چاہیئے تاکہ دوسرے افراد بھی سرزنش نہ کریں(لَاتَثْرِیبَ عَلَیْکُم)

6۔ بھر پور عزت و قدرت کے وقت عفو و درگزرکرنا، اولیائے الٰہی کی سیرت رہی ہے(لَاتَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ )

7۔ خداوندعالم کی بخشش ان لوگوں کے بھی شامل حال ہوتی ہے جنہوں نے سالہاسال خدا کے دو پیغمبروں (یعقوب (ع)و یوسف(ع)) کو اذیت پہنچائی تھی ۔(هُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

8۔ جب بندہ معاف کررہا ہے تو''ارحم الراحمین '' خدا سے بخشش کے علاوہ کیا امید رکھی جاسکتی ہے(یَغْفِرُ اﷲُ لَکُمْ)

9۔ شرمندہ افراد کو معاف کردینا الٰہی سنت ہے (یغفر۔ صیغہ مضارع ہے جو استمرار پر دلالت کرتاہے )

10۔ مظلومین کا ظالموں کو معاف کردینا رحمت الٰہی کے شامل حال ہونے کا پیش خیمہ ہے لیکن ایسے افراد کو معاف کردیا جانا مغفرت و رحمت الٰہی پر موقوف ہے ۔( لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اﷲُ لَکُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ .)

11۔ خداوندعالم کو صفت مغفرت و رحمت (مانند ارحم الراحمین) سے یاد کرنا، دعا و استغفار کے آداب میں سے ہے ۔