(93) اذْهَبُوا بِقَمِیصِی هَذَا فَأَلْقُوهُ عَلَی وَجْهِ أَبِیْ یَأْتِ بَصِیرًا وَأْتُونِی بِأَهْلِکُمْ أَجْمَعِینَ
''یہ میرا کرتا لے ج اور اس کو ابا جان کے چہرہ پر ڈال دینا کہ وہ پھر بینا ہوجائیں گے اور تم لوگ اپنے سب اہل و عیال کو لے کر میرے پاس آج''۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان میں آپ (ع)کے کرتے کا تذکرہ مختلف مقامات پر ملتا ہے ۔
(الف) (و جا علی قمیصہ بدم کذب)بھائیوں نے جناب یوسف(ع) کے کرتے کو جھوٹے خون سے آ غشتہ کردیا اور اسے باپ کے پاس لے گئے کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔
(ب)(قدّ قمیصه من دبر) پیچھے سے پھٹا ہوا کرتا جرم اور مجرم کے کشف کا سبب بنا ۔
(ج)(اذْهَبُوا بِقَمِیصِی) کرتا نابینا یعقوب (ع)کے لئے شفا کا سبب بنا ۔
اگر ایک کرتا یوسف (ع)کے ہمراہ رہنے کی بنیاد پر نابینا کو بینا بنا دیتاہے تو مرقد و صحن اس کے در و دیوار اور کپڑے بلکہ ہر وہ چیز جو اولیائے الٰہی کے جوار میں ہے وہ تبرک ہے اور اس سے شفا کی امید ہے ۔
یہ مرحلہ توحل ہوگیاجس میں بھائیوں نے جناب یوسف (ع)کو پہچان لیا، عذر خواہی کرلی اور حضرت یوسف علیہ السلام نے بخش بھی دیا ۔ لیکن ابھی دوسرا مرحلہ باقی ہے ابھی بھائیوں کے ظلم کے آثار باپ کی نابینائی کی شکل میں آشکار ہیں ۔لہٰذا اسی مشکل کو یوسفی تدبیر نے اس آیت میں حل کیا ۔ روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا: میرا کرتا لے کر بابا کے پاس وہی جائے جو میرا خون بھرا کرتا لے گےا تھا تاکہ جس طرح بابا کو آزردہ خاطر کیاتھا اسی طرح ان کا دل شاد کرے ۔