(94) وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّی لَأَجِدُ رِیحَ یُوسُفَ لَوْلَا أَنْ تُفَنِّدُونِ.
''اور جوں ہی یہ قافلہ (مصر سے حضرت یعقوب کے شہر کنعان کی طرف) چلا تو ان لوگوں کے والد (یعقوب) نے کہہ دیا کہ اگر مجھ کو سیٹھایا ہوا نہ کہو تو (ایک بات کہوںکہ) مجھے یوسف کی بو معلوم ہورہی ہے ''۔
'' فَصَلَتْ'' یعنی دور ہوگئے ۔فَصَلَتِ الْعِیرُ ۔یعنی کارواں، مصر سے دور ہوگیا ۔''ْ تُفَنِّدُون'' کا مادہ (فند)سٹھیانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
جناب یعقوب(ع) کو اس کی فکر تھی کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ ان کی عقل جواب دے گئی ہے۔ لیکن ہائے افسوس پیغمبر اسلام (ص) کے اردگرد رہنے والے بعض صحابیوں نے پیغمبر (ص) کو اس نسبت سے منسوب کردیا یہ اس وقت ہوا جب بوقت رحلت آپ (ص)نے فرمایا : قلم و کاغذ لے تاکہ ایسی چیز لکھ دوں کہ اگر اس پر عمل کرو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے اس وقت تاریخ کی ایک طویل القامت شخصیت نے کہا : ان الرجل لیھجر۔یہ مرد ہذیان بک رہا ہے۔ اسکے بعدآنحضرت(ص) کو کچھ لکھنے نہ دیا ۔
انی لاجد ریح یوسف۔ کوئی مشکل نہیں ہے ۔ کیونکہ جس طرح انبیاء (ع)وحی کو درک کرتے ہیں لیکن ہم درک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اسی طرح بقیہ امور میں بھی ممکن ہے کہ ایسی چیزوں کو درک کرلیں جو ہماری عقول سے بالاتر ہیں ۔ کیا پیغمبر اسلام (ص)نے جنگ خندق میں خندق کھودتے ہوئے کدال اور پتھر سے مل کر نکلتی ہوئی چنگاری کو دیکھ کر نہیں فرمایا کہ میں نے اس چنگاری میں بڑے بڑوں کو خاک چاٹتے ہوئے دیکھ لیا ؟ لیکن جو ضعیف الایمان تھے وہ کہنے لگے پیغمبر (ص) تو اپنی جان کے خوف سے اردگرد خندق کھود رہے ہیں لیکن آنحضرت(ص) نے کدال کی ہر ضرب پر ایک حکومت کی شکست اور فتح کا وعدہ دےدیا ۔