15%

آیت 95:

(95) قَالُوا تَاﷲِ إِنَّکَ لَفِی ضَلَالِکَ الْقَدِیمِ

''وہ لوگ کہنے لگے : آپ یقینا اپنے پرانے خبط (محبت) میں (مبتلا) ہیں''۔

نکات:

اس سورہ کی آٹھویں آیت میں ہم نے پڑھا کہ بھائیوں نے باپ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے کہا:(انا ابانا لفی ضلال مبین) ہمارے بابا تو یوسف (ع)اور اس کے بھائی کی بے جا محبت میں آشکارا گمراہی میں پڑ گئے ہیں ۔ اس آیت میں کہہ رہے ہیں کہ(ضلالک القدیم ) یوسف(ع) کے سلسلے میں اب بھی اسی غلطی پر ڈٹے ہیں ۔

عوام الناس ،اولیائے الٰہی کو اپنی ناقص عقل کی کسوٹی پر نہ تولیں اور یہ فیصلہ صادر نہ کریں کہ فلاں کام ہوسکتا ہے اور فلاں کام نہیں ہوسکتا ۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: الناس اعداء ماجهلوا ۔انسان ہر اس چیز کا دشمن ہے جسے نہیں جانتا۔

پیام:

1۔ نیک کردار افراد کے افعال کو خود سے قیاس نہ کیجئے(إِنَّکَ لَفِی ضَلَالِک...) (باپ کی طرف گمراہی کی نسبت دینا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لوگ نبی کو اپنی عقل سے درک کرنا چاہتے تھے )

2۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اس جدائی کی طولانی مدت میں حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی سے مطمئن تھے اور اس کا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے اسی وجہ سے آپ کے بیٹوں نے کہا(إِنَّکَ لَفِی ضَلَالِکَ الْقَدِیمِ )