(96) فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِیرُ أَلْقَاهُ عَلَی وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِیرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکُمْ إِنِّی أَعْلَمُ مِنَ اﷲِ مَا لاَتَعْلَمُونَ.
''پھر یوسف کی خوشخبری دینے والا آیا اور یوسف کے کرتے کو یعقوب کے چہرہ پر ڈال دیا تو یعقوب فوراً بینا ہوگئے (تب یعقوب نے) کہا کیوں میں تم سے نہ کہتا تھا جو باتیں خدا کی طرف سے میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے''۔
اگر آنکھ کے سفید ہونے''وابیضت عیناه'' سے مراد بینائی میں کمی واقع ہونا ہے تو''بصیراً'' سے مراد آنکھوں کا پر نور ہونا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خوشی اور غم انسان کی قوت باصرہ پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن اگر مراد مطلق نابینائی ہے یعنی جناب یعقوب (ع)فراق یوسف (ع)میں دیکھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے تھے جیساکہ ظاہر آیت''فَارْتَدَّ بَصِیرًا'' سے یہی سمجھ میں آتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک معجزہ اورتوسل تھا جس کی طرف قرآن مجید اشارہ کررہا ہے۔
دنیا نشیب و فراز سے بھری ہوئی ہے حضرت یوسف (ع)کے بھائیوں نے ایک دن خبر پہنچائی تھی کہ یوسف (ع)کو بھیڑیا کھا گیا اور آج وہی بھائی حضرت یوسف (ع)کے حاکم ہونے کی خبر لا رہے ہےں ۔
1۔ علم انبیاء (ع)کا سرچشمہ، علم الٰہی ہوتا ہے ۔( أَعْلَمُ مِنَ اﷲِ ...)
2۔ الٰہی نمائندوں کو خدا کے وعدوں پر یقین و اطمینان ہوتا ہے ۔( أَلَمْ أَقُلْ...)
3۔ حضرت یعقوب(ع) اپنے فرزندوں کے برعکس حضرت یوسف (ع)کی زندگی اور فراق کے وصال میں تبدیل ہونے پر مطمئن تھے ۔( أَلَمْ أَقُلْ لَکُمْ)
4۔ ارادہ الٰہی طبیعی قوانین پر حاکم ہوتا ہے۔( فَارْتَدَّ بَصِیرً)
5۔ اولیائے الٰہی کا لباس اور ان سے ارتباط بااثر ہوسکتا ہے۔( فَارْتَدَّ بَصِیرً)