15%

آیت 99:

(99) فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ آوَی إِلَیْهِ أَبَوَیْهِ وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاءَ اﷲُ آمِنِینَ

''(غرض) جب یہ لوگ (حضرت یوسف کے والد، والدہ ، اور بھائی) یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے والدین کو اپنے پاس بٹھایا اور کہا: مصر میں داخل ہوجاہیئے اللہ نے چاہا توا من سے رہیں گے ''۔

نکات:

داستان کے اس حصے کو میں کیسے لکھوں میں نہیں جانتا حضرت یوسف (ع)اپنے والدین کے استقبال کے لئے بیرون شہر خیمہ ڈال کر انتظار کی گھڑیاں گزار رہے ہیں تاکہ بڑے ہی عزت و احترام سے انہیں شہر مصر میں لے جائیں(دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ... ادْخُلُوا مِصْرَ...)

اسی طرح فطری بات ہے کہ ادھر جب حضرت یوسف (ع)کے والدین اور بھائی سفرکی تیاری کررہے ہوں گے تو پورے کنعان میں ہنگامہ ہوگا ۔ لوگ بغور ملاحظہ کر رہے تھے کہ کس طرح سالہاسال کے بعد بیٹے کی سلامتی کی خبر سن کر خوشی سے جھومتے ہوئے حضرت یعقوب روشن و منور آنکھوں کے ہمراہ مشتاقانہ دیدار فرزند کے لئے آمادہ سفر ہیں۔

اہل کنعان بھی باپ اور بیٹے کے اس ملن کی خبر سے بے حد خوشحال تھے بطور خاص اس بات پر خوش تھے کہ حضرت یوسف (ع)مصر کے خزانہ دار ہیں اور خشک سالی کے زمانے میں غلہ بھیج کران کی مدد فرمائی ہے ۔نہیں معلوم کس شوق و ولولہ اور عشق و محبت کے ساتھ اس واقعہ کو حوالہئ قرطاس کیا جائے اور کہاں پراسے تمام کیا جائے !