(101) رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنْ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِی مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَ تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ
''(اس کے بعد یوسف نے دعا کی )پروردگار تو نے مجھے اقتدار کا ایک حصہ بھی عطا فرمایا اور مجھے خواب کی تعبیر بھی سکھائی، اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی میرا مالک و سرپرست ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تو مجھے (دنیا سے)مسلمان اٹھالے اور مجھے نیکوکاروں میں شامل فرما''۔
اولیائے خدا جب بھی اپنی عزت و قدرت کو ملاحظہ کرتے ہیں تو فوراً یاد خدا میں سر نیاز خم کردیتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں: خدایاجو کچھ بھی ہے تیرا ہی دیا ہوا ہے۔ حضرت یوسف(ع) نے بھی یہی کہا ،باپ سے گفتگو کرتے کرتے خدا کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ خداوندعالم نے مصر کی حکومت دو افراد کے ہاتھ میں دی ایک فرعون کہ جس نے اس حکومت کو اپنی طرف منسوب کرلیا۔(الیس لی ملک مصر) (1) دوسرے حضرت یوسف علیہ السلام جنہوں نے اس کی نسبت خداوندعالم کی طرف دی(اتیتنی من الملک)
ابراہیمی طرز تفکر ،ان کی نسل میں بھی جلوہ گر ہے ۔کل حضرت ابراہیم (ع)نے فرمایا تھا۔(اسلمت لرب العالمین) (2) میںپروردگارعالم کے سامنے تسلیم ہوں ۔ آپ(ع) کے بعد آپ (ع)کے پوتے حضرت یعقوب (ع)اپنے فرزندوں سے وصیت فرماتے ہیں کہ باایمان اس دنیا سے رخصت ہوں(لاتموتن الا و انتم مسلمون) (3) یہاںفرزند یعقوب حضرت یوسف بھی وقت وفات تسلیم و رضائے الٰہی کی درخواست کررہے ہیں (توفنی مسلما)۔ بہرحال حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شمار صالحین میں ہوتا ہے(انه فی الاخر لمن الصالحین) (4) اورحضرت یوسف (ع)چاہتے ہیں کہ انہی سے ملحق
--------------
(1) سورہ زخرف آیت 51 (2)سورہ بقر آیت 131.
(3) سورہ بقر آیت 132 (4) سورہ بقر آیت 130