15%

آیت 108:

(108) قُلْ هَذِهِ سَبِیلِی أَدْعُو إِلَی اﷲِ عَلَی بَصِیرَ أَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِی وَسُبْحَانَ اﷲِ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ.

''(اے رسول) ان سے کہہ دو : یہی میر ا راستہ ہے میں اور میرے پیروکار پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور خدا (ہر عیب و نقص سے)پاک و پاکیزہ ہے اور میں مشرکین سے نہیں ہوں''۔

نکات:

توحید کی طرف دعوت دینے والا شخص عوام سے جدا ہوتا ہے کیونکہ گزشتہ دو آیتوں سے ثابت ہے کہ عوام الناس کا ایمان غالباً شرک سے آلودہ ہوتا ہے( وَمَا یُمِنُ أَکْثَرُهُمْ بِاﷲِ إِلاَّ وَهُمْ مُشْرِکُونَ ) لیکن دینی مبلغ کو ایسا ہونا چاہیئے کہ علی الاعلان کہہ سکے :(وما انا من المشرکین)

پیام:

1۔انبیاء (ع)کی راہ تمام افراد کے سامنے واضح اور روشن ہے( هَذِهِ سَبِیلِی)

2۔رہبر کو بصیرتِ کامل کا حامل ہونا چاہیئے(عَلَی بَصِیرَ )

3۔رہبر کی دعوت خدا کی طرف سے ہو ،نہ کہ اپنی طرف سے( أَدْعُو إِلَی اﷲ)

4۔دینی مبلغ کو خالص و مخلص ہونا چاہیئے(وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ)

5۔تبلیغ کا مرکز و محور ''خداوند عالم کو ہر شرک و شریک سے منزہ کرنا'' ہونا چاہیئے(سُبْحَانَ اﷲِ)

6۔پیغمبر اسلام (ص) کے ہر پیروکار کو ایسا مبلغ ہونا چاہیئے کہ وہ بصیرت و آگاہی کے ساتھ لوگوں کو خدا کی طرف بلا سکے(أَدْعُو إِلَی اﷲِ...أَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِی)

7۔توحید کا اقرار اور شرک کی نفی دین اسلام کی بنیاد ہے۔(أَدْعُو إِلَی اﷲِ...َمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ)