7%

آیت 19:

(19) وَجَائَتْ سَیَّارَ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَی دَلْوَهُ قَالَ یَابُشْرَی هَذَا غُلَامٌ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَ وَاﷲُ عَلِیمٌ بِمَا یَعْمَلُونَ

''اور (خدا کی شان دیکھویوسف کنویں میں تھے کہ )ایک قافلہ (وہاں)آکر اترا ان لوگوں نے اپنے سقے کو (پانی بھرنے)بھیجا اس نے اپنا ڈول ڈالا ہی تھا (کہ یوسف اس میں ہو بیٹھے اور اس نے کھینچا تو باہر نکل آئے)وہ پکارا ! آہا یہ تو لڑکا ہے اور قافلہ والوں نے یوسف کو قیمتی سرمایہ سمجھ کر چھپا رکھا حالانکہ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں خدا اس سے خوب واقف ہے''۔

نکات:

خداوندمتعال اپنے مخلص بندوں کو ان کے حال پر نہیں چھوڑتا بلکہ مصیبتوں اور مشکلات سے نجات دیتا ہے ۔

جیسا کہ جناب نوح (ع) کو پانی کے اوپر ، جناب یونس (ع) کو پانی کے اندراور جناب یوسف (ع)کو پانی کے کنارے نجات دی ۔ اسی طرح جناب ابراہیم (ع)کو آگ سے جناب موسیٰ(ع) کو وسط دریا میں اور حضرت محمد مصطفی (ص) کو غارکے اندر ، حضرت علی علیہ السلام کو شب ہجرت رسول اکرم (ص)کے بستر پر سوتے ہوئے نجات دی۔

جب بھی خدا ارادہ کرتا ہے تو انسانی درخواست اور خواہش کے بغیر وہ جامہ عمل سے آراستہ ہوجاتا ہے ۔ جناب موسیٰ(ع) آگ لانے گئے تھے لیکن وحی اور پیغمبری کے ساتھ لوٹے، یہ قافلہ پانی لانے کے لئے گیا تھا لیکن وہ جناب یوسف (ع)کو نجات دے کر لوٹا۔

ارادئہ الٰہی سے کنویں کی رسی وسیلہ قرار پائی کہ جناب یوسف (ع)کنویں کی گہرائی سے نکل کر تخت و تاج اور حکومت تک پہنچیں تو ذرا غور کریں کہ''حبل الله'' ( اللہ کی رسی )سے کیا کیا کارنامے انجام پذیر ہوسکتے ہیں اور انسان بلندیوں کی کن منازل تک پہنچ سکتا ہے ۔