(20) وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَ وَکَانُوا فِیهِ مِنْ الزَّاهِدِینَ
''(قافلے والوں نے)یوسف کو بڑی کم قیمت پر چند گنتی کے کھوٹے درہم کے عوض بیچ ڈالا اور وہ لوگ اس میں زیادہ طمع بھی نہیں رکھتے تھے ''۔
ہر آدمی اپنے وجود کے یوسف کو سستا بیچ کر پشیمان ہوتا ہے کیونکہ ، عمر ، جوانی ، عزت و استقلال اور انسان کی پاکیزگی ان میں سے ہر ایک یوسف ہے جسے سستا نہیں بیچنا چاہیئے۔
1۔ وہ مال جو آسانی سے آتا ہے وہ آسانی سے چلا بھی جاتا ہے (شَرَوْه)
2۔ جو شخص کسی چیز کی اہمیت اور قیمت کو نہیں پہچانتااسے سستا بیچ دیتا ہے(بِثَمَنٍ بَخْسٍ )(قافلہ والے حضرت یوسف (ع)کی حقیقت و اہمیت سے نا آشنا تھے)
3۔ انسان پہلے گرایا جاتا ہے پھر غلام بنایا جاتا ہے اس کے بعد سستا بیچ دیا جاتا ہے۔
4۔ پیسوں کی تاریخ ،اسلام سے ہزاروں سال پرانی ہے (دَرَاهِمَ )
5۔ نظام غلامی اور غلام فروشی کا سابقہ طولانی ہے ۔ (شَرَوْه)
6۔ قانون طلب و رسد (بازار میں مال کی آمد اور خریدار کی کثرت )قیمت کی تعیین میں موثر ہے (چونکہ قافلے والے بیزار تھے اس لئے یوسف کو ارزاں بیچ دیا)
7۔بے معرفت مردوں نے جناب یوسف (ع)کو کم قیمت میں بیچ دیا لیکن با معرفت عورتوں نے جناب یوسف(ع) کو ایک کریم فرشتہ کہا ۔ روایت میں آیا ہے''رُبّ امرئ افقه من الرجل'' کتنی ہی ایسی عورتیں ہیں جو مردوں سے زیادہ سمجھ دار ہوتی ہیں۔